برطانوی اخبار IBTimes: داعش کے خلاف جنگ میں عراقیوں کو شہداء کا غم نہیں


کربلا شہر کے مرکز سے پندرہ منٹ کی ڈرائیونگ کے فاصلے پر سیف سعد ٹاون کے جدید شاپنگ سینٹرز ہیں، لیکن پڑوس میں مٹی سے بنے غیر منظم مکانات کی کچی آبادی ہے ۔

عبیدہ 13 سال سیکل پر سوار ہمارے استقبال کے لئے آیا اور اپنا گھر جس میں خود اور ان کی والدہ اور تین بھائی رہتے ہیں لیکر گیا، دیوار پر لگی ایک تصویر پر نگاہ پڑی جس میں ایک دلیر جوان کی عکس ہے اور اس کے اوپر میں عراقی پرچم اور اس کے برابر میں امام حسین کا علم لگے ہوئے تھے اور ان ارد گرد پھول آویزاں تھے، تصویر پر لکھا ہوا تھا(بہادر شہید ولید محمد حامد) اور عبیدہ ان ہی کا بیٹا ہے۔

شہید کی بیوہ رقیہ اپنے شوہر ولید کی وفات کے بارے بتاتی ہے کہ رات کے ایک بجے کا وقت تھا کال آئی اور مجھے خبر دی گئی کہ ولید زخمی ہوگئے اور مزید حالت کے بارے کچھ نہیں بتایا گیا۔

ولید بیجی کے محاذ پر سنہ 2015 میں داعش تنظیم کے لگایا ہوا ایک سایڈ بم پٹنے سے شدید زخمی ہوئے اور ہسپتال میں دم توڑ گئے، ولید کا تعلق امام علی بریگیڈ میں برتی رضاکاروں میں سے تھا، اور 400 ہزار دینار(330$) کے علاوہ ان کو بطور تنخواہ کوئی بھی ادائگی نہیں ہوئی۔

عبیدہ اپنے والد کے بارے بتاتا ہے کہ جب وہ اسکول جاتا تھا تو ان کے والد ان کی کافی ہمت افزائی کرتے تھے اور ان کو اسکول لے جایا کرتے تھے اور جیب خرچ بھی دیتے تھے، عبیدہ کہتا ہے کہ ان کو اپنے والد پر فخر ہے کہ عراق کے دفاع میں اور داعش کے خلاف جنگ میں شہید ہوئے۔

ولید کی بیوہ رقیہ بتاتی ہے کہ اپنے خاوند ولید سے مطالبہ کرتی رہی کہ حشد الشعبی کو چھوڑ دے، چونکہ یہ رضا کارانہ فوج ہے اور کوئی تنخواہ بھی میسر نہیں مگر وہ انکار کرتے رہے، اور گھر کی حالت خراب ہوتی گئی جس کی وجہ سے اپنے بچوں کو باہر روڈ پر مختلف اشیاء کے فروخت لئے بھیجتی رہی تاکہ گھر کا خرچہ نکل سکے، مزید کہتی ہے ولید کی شہادت کے بعد حالت زار ہوگئی ہے۔

ولید ایک دیندار انسان تھے ان کی خراب معاشی حالت کے باوجود ، اور وہ مقدس مقامات اور مزارات بالخصوص امام حسین (علیہ السلام) کربلا میں جایا کرتے تھے، جب جون 2014 میں شیعہ مرجع اعلی سید علی السیستانی دفاعی فتوی جاری کئے جس میں داعش کے خلاف لڑنے کے لئے کہا گیا تھا، تو فورا ولید کو ہمت افزائی ملی اور کہتے رہنے لگے کہ اس فتوی کے بعد ہم پر واجب ہے کہ ہم اپنے خاندانوں کی حفاظت کریں اور اپنے ملک کے زیر قبضے شہروں کو آزادی دلوائیں۔ 

ولید کے گھر میں مختلف پوسٹرز اور تصاویر تھیں جس میں مقدس مزارات اور مرجع اعلی سید السیستانی کی تصویربھی ہے، اس کے علاوہ رقیہ اور بچوں کے لئے باقی کچھ نہیں بچا، اور گھر کو چلانے کے لئے مخیر دینی آرگنائزیشنز کے امداد کا سہارا لیا جانے لگا ہے۔

رقیہ کہتی ہے کہ بہت سے لوگ ہمارے لئے پیسے بیھجتے ہیں اور اپنے بچوں کو عتبات عالیہ کے اسکولوں میں داخل کرد‏یے گئے۔

الحشد الشعبی کے علی اکبر بریگیڈ کے ہیڈ کوارٹر کا دورہ کرتے ہوئے ہم نے وہاں پر متعدد پوسٹرز دیکھے ہیں جس میں شہیدوں کے تصاویر اور ان کے نام درج تھے اور یہ شہید انبار اور نینوی وغیرہ میں داعش کے خلاف جنگ میں مارے گئےتھے۔

رضا کار سپاہی نایف احمد نے ہمیں بتایا: ہمارے بیشتر لڑائی تلعفر کے مضافات میں ہو رہے ہیں تاکہ داعش کے لئے فوجی اور دیگر امداد کو روکا جاسکے اور ابھی ابھی ہمارے چار رضا کار شہید ہوگئے، خودکش کاربم سب سے بڑا چیلنج ہے۔

مزید بتاتے ہوئے نایف احمد کہتے ہیں کہ جب ہم سنتے ہیں کہ ہمارے کوئی رضا گار سپاہی داعش کے خلاف جنگ میں شہید ہوئے تو ہم غم کی بجائے خوشی مناتے ہیں، میں خود موصل کے محاذ کے لئے جا رہا ہوں اور اپنی وصیت میں لکھا ہے میری شہادت کے بعد میرا بیٹا جنگ میں برتی ہوجائے۔  

میں چاہوں تو عراقی فوج میں برتی ہوسکتا ہوں جس سے تقریبا 2000 ڈالر تنخواہ بھی مل سکتی ہے، لیکن میں نے حشد الشعبی کو انتخاب کیا کیونکہ حشد میں جانے سے میری شرعی واجبات اور نظریات کی ترجمانی ہوتی ہے اور یہ میرے لئے اپنے خاندان سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں احمد کہتا ہے۔

علی اکبر بریگیڈ اس وقت وجود میں آیا جب آقا سید السیستانی کے جہاد کفائی کا فتوی  روضہ امام حسین (علیہ السلام) میں پڑھ کر سنایا گیا، احمد کہتے ہیں اگر ان کو شام کے مقدس مزارات کے دفاع کے لئے کہا جائے تو وہ جائیں گے اور ان کی حفاظت کی جنگ لڑیں گے کیوںکہ بیبی زینب کا روضے کا دفاع امام حسین (علیہ السلام) کے روضے کے دفاع کے برابر ہے اور اگر  کوئی فرق ہے تو صرف ان کے درمیانی سفری فاصلہ کا ہے۔

جنگ میں جانا احمد کے لئے ان کے خاندان سے زیادہ اہم ہے، ان کے دو ذہین بچے ہیں اور اسکول میں پڑھتے ہیں، احمد کہتے ہیں کہ میں ان سے دور ہوں اور ان کی پڑھائی میں مدد نہیں کر رہا ہوں اور یہ تشویش والی بات ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ ملک کو آزاد کرنا زیادہ اہم ہے۔  

کربلا سے 80 کیلو میٹر کے فاصلے پر مسجد کوفہ واقع ہے، وہاں پر ایک شہید سپاہی کا جنازہ لایا گیا تھا جوکہ عراقی پرچم میں لپیٹا ہوا تھا اور برابر میں سرایا السلام بریگیڈ جوکہ مقتدی الصدر کے تابع ہے ان کا علامتی جھنڈا بھی لہرا رہا تھا، یہ شہید اسی بریگیڈ سے تعلق رکھتے تھے جو داعش کے خلاف جنگ میں مارے گئے تھے، میں نے دیکھا کہ جنازے پر دو نوجوان رو رہے تھے اور برابر میں ایک شخص کھڑا کہہ رہا تھا : آپ لوگ کیوں غمگین ہیں؟ تمھیں خوشخبری مل گئی ہے کہ تمھارا دوست وطن کے دفاع میں مارے گئے ہیں۔

 

مترجم: حسن محمد موسی

کیلوم پیٹن IBTime

 

یاد رہے یہ وہ صحافی ہیں جو برطانیہ کے IBTimes کے لئے کام کرتے ہیں اور روضہ مقدس حسینی کے شعبہ بین الاقوامی میڈیا کی دعوت پر برطانیہ، امریکہ اور ملیشیا کے مشترکہ وفد میں شامل تھے۔ 

تبصرے
کوڈ کی تبدیل
تبصرے فیس بک