کسی واقعے کے اصلی محرکات اور ہوتے ہیں اور اس سے حاصل ہونے والے فوائد اور ہوتے ہیں۔ فوائد کو نتیجہ قرار دیا جا سکتا ہے محرک نہیں، یہی حال شخصیت کا ہے کہ شخصیت اقدام کا تقاضا ضرور کرتی ہے کہ شاید انسان اس طرح کی شخصیت کا مالک نہ ہوتا تو ایسا اقدام نہ کرتا لیکن اس کے معنی یہ ہرگز نہیں ہیں کہ شخصیت ہی کو اصل محرک قرار دے دیا جائے بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان اسباب و عوامل کا پتہ لگایا جائے جنہوں نے اس شخصیت کو اتنے بڑے اقدام پر مجبور کر دیا ہے اور جن کے نتیجے میں کوئی خاص واقعہ پیش آیا ہے۔
واقعہ کربلا کے سلسلے میں بعض احتمالات تو انتہائی بے ربط اور مہمل ہیں اور انہیں روح کربلا کو فنا کرنے کا سبب تو قرار دیا جا سکتا ہے، اسباب و عوامل کی تلاش نہیں کہا جا سکتا۔ جس طرح کہ اس واقعہ کو ایک اتفاقی حادثہ قرار دینا یا بنی امیہ اور بنی ہاشم کی خاندانی جنگ سے تعبیر کرنا یا حضرت امام حسینؑ کی طرف سے حکومت برائے حکومت کی خواہش یا عوام کے لیے روٹی کپڑے کا انتظام یا ایسے ہی اور دوسرے احتمالات جن کو روح کربلا سے کوئی تعلق نہیں ہے اور بعض دوسرے اسباب جنہیں مستقل محرک تو نہیں کہا جا سکتا تاہم انہیں تحریک کا ایک حصہ ضرور قرار دیا جا سکتا ہے جیسے حضرت امام حسین ؑ کی بحیثیت امام مخصوص ذمہ داریاں یا ان کی عظیم ترین شخصیت جو انہیں ہر آن اس بات پر آمادہ کر رہی تھی کہ انہیں سب سے ہٹ کر ایک نیا راستہ اختیار کر نا چاہیے اور ایک عظیم قدم اٹھانا چاہیے۔
حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے اقدام کا حقیقی سبب ایک بڑے جامع منصوبے کو قرار دیا ہے جس میں بہت سے وہ چھوٹے چھوٹے اسباب بھی شامل ہو جاتے ہیں جن کو مفکرین نے مستقل سبب کا درجہ دیا ہے اور جن میں مستقل محرک بننے کی صلاحیت نہیں ہے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کا جامع منصوبہ ’’امت ِجد‘‘ کی اصلاح کی کوشش کرنا ہے جس کے وسائل امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور اپنے بزرگوں کی سیرت پر عمل کرنا ہے۔
اصلاح ’’امت جد‘‘ کے اس منصوبے میں سماج کی وہ انفرادی برائیاں بھی شامل ہیں جن میں اس دور کا انسان مبتلا ہوگیا تھا اور وہ اجتماعی فسادات بھی شامل ہیں جو سماجی ڈھانچے کا ایک جزو بن گئے تھے۔ ایک دائرے میں یزید جیسے بدکردار انسان کی حکومت بھی شامل تھی اور اس کے عوام کی بدحالی، تباہی اور بربادی بھی، حضرت امام حسین علیہ السلام نے ان تمام حالات کا جائزہ لینے کے بعد اس اقدام کو ضروری سمجھا جس کا تقاضا ان سے ان کی شرافت نفس، دینی ذمہ داری اور مقدس رشتے کر رہے تھے۔ اسی لیے انہوں نے اصلاحی منصوبے میں امت پیغمبرؐ کا نام نہیں لیا بلکہ امت جد کا نام لیا اور طریقہ کار معین کرنے میں احکام و تعلیمات اسلامی کا حوالہ نہیں دیا بلکہ اپنے ’’اَب و جد ‘‘کی سیرت کا حوالے دیا۔