امام محمد باقر علیہ السلام اور زمانے کی سختیاں


امام محمد باقر علیہ السلام اور زمانے کی سختیاں

واقعہ کربلا 61 بجری اور اس میں رونما ہونے والے مصائب اور امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد امام زین العابدین علیہ السلام کی امامت شروع ہوئی جو 95 ہجری تک جاری رہی جوکہ چھونتیس34 سال ہوتے ہیں جس میں امام سجادعلیہ السلام مسلمانوں کی حالت زار کو ترتیب دینے میں بہت زیادہ مصروف رہے، بالخصوص ان کے شیعہ، ماننے والے اور چاہنے والے کثیر تعداد میں تھے، امام علیہ السلام اپنی درایت اور بہترین حکمت عملی سے مسلمانوں کو اپنے طرف مائل کئے اور ایک جامعہ علمیہ کی بنیاد ڈالی جس میں اہل بیت علیہم السلام کے علوم تدریس دیکر اپنے شاگردوں کو مختلف ممالک میں بھیحتے تھے جس سے امام علیہ السلام لوگوں میں آشکار ہوگئے جس کی ایک واضح مثال حجر اسود تک پہنچنے کے لئے لوگوں کے دو طرف ہوکر امام کو راستہ دینا تھا جس سے اموی جابر حکمران ایسا کرنے سے قاصر رہا۔

لیکن اموی حکمران کو آخرکار معلوم ہوگیا تھا کہ امام سجاد علیہ السلام ایک بہت بڑا عالمانہ نیٹ ورک چلا رہے ہیں جو دور دور تک قائم تھا حتی کہ غیر اسلامی ممالک بھی ان میں شامل تھے یہاں تک کہ تاریخ دانوں نے ذکر کیا کہ اموی حاکم وقت ولید بن عبد الملک نے کہا (مجھے آرام کہاں سے ملتا اور علی بن الحسین دنیا میں زندہ ہے) اور سازش کرکے مدینے کے والی سلیمان بن عبد الملک کے ہاتھوں زہر دیکر امام سجاد علیہ السلام کو شہیدا کردیا۔

اس کے بعد ایک نیا دور کا آغاز ہوگیا جس میں بنی امیہ کے حکمران امام محمد باقر علیہ السلام کے خلاف ظالمانہ سخت نگرانی لگائی اور ان کے شیعوں کے ہر جگہ پیچھے کرنے لگے اور معاویہ بن ابی سفیان کے زمانہ ظلم کے مشابہ ہونے لگا جب جبر وتشدد اور قتل سے شیعیان حیدر کرار (علیہ السلام) مبتلا کردیے گئے تھے۔

امام باقر علیہ السلام سے ابو بصیر روایت کرتے ہیں کہ میں امام باقر علیہ السلام سے عرض کیا: آپ پر میں قربان جاؤں، لوگوں نے ہمیں ایک نام دیا ہے جس سے حکمراوں نے ہمارے خون، مال اور عذاب دینے کو حلال کردیا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: وہ کیا ہے؟ میں نے کہا الرافضہ۔ پھر امام باقر (علیہ السلام) نے فرمایا:(فرعون کے لشکر میں ستّر مردوں نے فرعون کو (رفض) ٹھکرا دیا اور موسی (علیہ السلام) کے ساتھ شامل ہوگئے اور قوم موسی میں سے ان (ستّر) سے زیادہ کوئی ہارون (علیہ السلام) کے خدمت گذار اور محب نہیں پائے گئے، موسی (علیہ السلام) نے ان کے نام الرافضہ رکھا، پھر اللہ تعالی نے موسی کو وحی کردی کہ اس نام کو ان کے لئے برقرار رکھو کیونکہ ان کو یہ نام میں نے عطا کیا ہے، (اور پھر امام نے فرمایا)  یہ نام اللہ نے تمھارے لئے چھنا ہے)۔

 

ایک اور واقعہ میں امام باقر علیہ السلام اس وقت کے شیعوں کی حالت بتاتے ہوئے فرماتے ہيں:(ہر جگہ ہمارے شیعہ قتل کئے گئے، شک کے بنیاد پر ہاتھ پیر کھاٹ د‏ئے گئے، اور جو کسی شخص کے بارے میں پتا چل جائے کہ ہم سے محبّت اور ہم سے تعلقات رکھنا چاہتا ہے تو ان کو قید کیا جاتا یا ان کے مال لوٹ لیا جاتا یا ان کے گھر منہدم کیا جاتا ہے)، اور جب امام علیہ السلام سے ایک صحابی پوچھتا ہے: اے فرزند رسول آپ کے صبح(حال) کیسا ہے؟ امام جواب دیتے ہیں:{ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) سے نسبت پر مجھ پر خوف مسلط ہے جبکہ سارے لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کی وجہ سے امن وامان میں ہیں}۔

  

ان سختیوں کے باوجود امام باقر علیہ السلام اپنے ماننے والوں کے حال احوال معلوم کرتے تھے ان کے بارے میں پوچھتے اور ان پر شفقت کرتے تھے۔

 

جب اموی حکمران نے دیکھا کہ حقیقی محمدی اسلام اور ان کے تعالیم کو پھیلانے سے امام باقر علیہ السلام کو روکھا نہیں جاسکتا تو ان کو شہید کرنے کا فیصلہ کرلیا، 7 ذی الحجہ 114 بجری کو اموی ‏غاصب خلیفہ ہشام بن عبد الملک اپنے والی مدینہ ابراہیم بن الولید بن عبد الملک کے ذریعے سے زہر دیکر امام باقر علیہ السلام کو شہید کیا۔

 

 

ترجمہ: حسن محمد موسی - بین الاقوامی میڈیا سینٹر/ روضہ مقدّس حسینی 

تبصرے
کوڈ کی تبدیل
تبصرے فیس بک