بغداد کا سفر
دنیا ٹی وی کے وفد کے ہمراہ بغداد سے سامراء جا رہے تھے تو تو رستے میں کئی جگوں پر گھاڑی روکھ کر عام لوگوں سے سوال وجواب کیا گیا اور وفد نے صدام کا زمانہ اور ابھی کے بارے میں رائے دریافت کی اور داعش کے ہاتھ بمباری اور بربادی کے پھیلے ہوئے مناظر کی فلم برداری بھی ہوئی اور لوگ دونوں صدام اور داعش کے ہاتھوں مظالم بیان کیا اور عراقی فورسز کی پیش قدمی پہ کافی خوش تھے۔
بغداد پہنچ کر گرین زون میں عراقی بارلیمانی ممبر انتصار الجبوری جو موصل شہر کی نمائندگی کرتی ہے ان سے ملاقات کے دوران عراق میں لوگوں کے حال احوال کے بارے دریافت کی بالخصوص خود اہل سنّت سے تعلق رکھتی ہیں اور موصل شہر کی پارلیمان میں نمائندگی کرتی ہے جہاں داعش نے اپنی بربریت کی حد کردی ہے، الجبوری صاحبہ نے کہاں "عراقی عوام ایک جان ہے جو کبھی ٹھکرے نہیں کیا جاسکتا ہے اور اہل سنت کے وہی حقوق اور واجبات ہیں جو اہل تشیع کے ہیں بلکہ ہم تو شیعہ بھائیوں کے ممنون ہیں جنھوں اپنے ہزاروں جوانوں الحشد الشعبی ، فوج اور سکیورٹی فورسز کی قربانی دیکر عراق کو بچایا اور موصل۔ صلاح الدین، دیالی اور انبار صوبوں کو آزاد کرایا اسی طرح کردوں کے پیش مرگہ فوج اور ان سب کا شکریہ جنھوں نے مشکل وقتوں میں ہمارے ساتھ دیا"۔
اگلے روز اتوار کو اہل سنت کے دار الافتاء کے مفتی اعظم شیخ مہدی الصمیدعی سے ملاقات کے لئے بغداد کے مشہور ام الطبول جامع مسجد جہاں افتاء کا مرکز ہے جہاں سے جامعہ علوم اسلامیہ اور ہزاروں مساجد کا کنٹرول اور ہزاروں امام جماعت کی سرپرستی ہوتی ہے ۔
جب وہاں پہنچے تو ہمیں دار الافتاء کے سرپرست اعلی کے سرکاری ترجمان نے خوش آمدید کہا اور ہمیں مختصر ملاقات شیخ الصمیدعی سے کروائی جو بیمار تھے اور ان کے گلے سے آواز نہیں نکل رہی تھی، بہر حال ان کے ترجمان جناب شیخ عامر البیاتی سے انٹرویو لی گئی، جناب کامران شاہد کے مختلف سوالوں کا جوابات دئیے ان میں سے یہ سوال بھی تھا کہ آپ اہل سنّت ہیں اور ایک عالم دین بھی آیا صدام کے بعد عراق کا نیا نظام میں جہاں شیعوں کی حکومت ہے آپ کو تو اذیت تو نہیں ہو رہی ہے؟ اور اپنی عبادت اور مساجد میں یا معاشرے میں ظلم اور آپ سے زیادتی تو نہیں ہو رہی ہیں؟
جواب میں شیخ عامر البیاتی صاحب نے کہا: "پہلی بات یہ ہے عراق میں شیعہ حکومت نہیں ہے بلکہ ایک مشترکہ حکومت ہے جس میں شیعہ، سنّی، کرد ہیں، اور پارلمان میں بھی سب عوام کی نمائندگی ہوتی ہے، دوسری بات ہم اہل سنّت کو جتنی آزادی ابھی حاصل ہے اتنی پہلے نہیں ملی بالخصوص صدّام حسین کے دور میں جہاں ہماری آزادی مقیّد تھی اور ہمارے اس ادارہ کو جس کی عمر 800 سال سے زیادہ ناکارہ کردیا گیا تھا اور وزارت اوقاف میں ضم کرکے دہنوں کو بند کیا گیا تاکہ کوئی حکومت کے خلاف کچھ نہ بولے جبکہ ابھی کے دور ہمارے ا احترام بحال ہوا ہے اور آزادی اتنی ہے کہ میری یو ٹیوب میں ایک ہزار سے زیادہ بیانات ہیں جو کھلے تنقید، مطالبات اور نصیحتوں پر مشتمل ہے"۔
معاشرہ کے اتحاد کے بارے میں جب کامران صاحب نے پوچھا کہ یہاں شیعہ سنی ایک دوسرے کے ساتھ کس طرح رہتے ہیں؟ تو جواب میں شیخ عامر البیاتی نے کہا: "ہم اخوت، محبت اور حب الوطنی کے ساتھ ایک دوسرے سے پیش آتے ہیں، سامراجی طاقتوں اور خطے میں موجود بیمار ذہن رکھنے والوں کی پوری کوشش رہی ہے کہ اس مثالی تعلقات کو پارہ پارہ کردے مگر وہ کامیاب نہیں ہوئے، شیعہ سنی کی مثالی تعلقات کے آپ کے سامنے میں خود ایک بڑا ثبوت ہوں، میری بیوی شیعہ ہے اور میرے داماد شیعہ ہے اور میں اہل سنت کے مفتی اعظم اور ادارہ دار الافتاء کا ترجمان اور معلم ہوں اور میری حالت کی طرح عراقی عوام میں دونوں شیعہ سنی کی دوستی کے ساتھ ساتھ خون کا رشتہ بھی ہے۔
''میرے سب کے لئے پیغام ہے کہ اپنی خصوصیت برقرار رکھتے ہوئے دوسروں کا احترام کریں بالخصوص جب مسئلہ ایک ملک ہے چاہے وہ شخص مسلم ہو یا غیر مسلم کیونکہ بم سب انسان اور حضرت آدم علیہ السلام کے اولاد ہیں"۔
بعد میں وفد نے شیخ عبد القادر جیلانی اور امام ابو حنیفہ کے مزارات کا دورہ کیا اور وہاں پر بھی عراقی عوام کو متحد پایا اور کربلا معلّی اور سامراء کی طرح یہاں پر بھی لوگ مختلف انداز میں کھڑے ہوکر نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اور اپنے طور پر وفد نے اپنے کیمرے کو ان مناظر سے مزیّن کیا۔